Pages

16 Jan 2015

اِتنا رنگیں جو ہُوا ' زخم نمائی سے ہُوا



اِتنا رنگیں جو ہُوا ' زخم نمائی سے ہُوا
دشت مشہور مِری آبلہ پائی سے ہوا

منصِفِ وقت پہ اب حرف نہیں آ سکتا
فیصلہ میرے خلاف اتِنی صفائی سے ہوا

یہ جو سن لیتا ہوں میں چپ کی صدا بھی مرشِد
اِتنا سنّاٹا مِرے دل کی دُہائی سے ہوا

ساتھ ہے اُس کا ' مِرے دل کے دھڑکنے کا سبب
راستہ سہل اِسی عُقدہ کُشائی سے ہوا

لذّتِ گِریہ سے آنکھوں کی شناسائی ہوئی
فائدہ اتنا مجھے زخمِ جدائی سے ہوا

  GUL ·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)♥●•





No comments:

Post a Comment