رخسار تمتماتے ہیں ایسے جناب کے
پہنے ہوں جیسے چاند نے گجرے گلاب کے
لکھا ہے تیرا ہی نام چاہت کے خون سے
آؤ ورق دکھاؤں میں دل کی کتاب کے
اتنی پلا دے آج کہ جی بھر کے روئیں ساقی
نکلیں ہماری آنکھ سے آنسو شراب کے
اترا وہ اس طرح سے سمندر کی گود میں
جتنے بھنور تھے سو گئے پہلو میں آپ کے
مل کے رات بھر پھر بھی نہیں ملا
سورج بتا گیا یہ دھوکے تھے خواب کے
دیدار یار منور کیسے ہو آج کل,
..♥♥پہرے ہیں چاند چہرے پہ کالے نقاب کے
No comments:
Post a Comment