زمستانوں سے ھوا
کروٹیں لیتی اترتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سمندروں کو پھلانگتی ، اڑتی ہوئ
دشت وصحرا میں کروٹیں لیتی ہوئ
وحشت زدہ بال کھولے ہوئے
بادلوں کی سیاہ دھاریوں سے الجھتی ہوئی
آنکھیں ملتی ہوئی خستہ دل
ساحل ِ وقت پر نیر بہانے آئی ہے
دور سرخ پنکھوں والے بگلوں کے غول
کہیں بادلوں کی فرغل میں چھپ رہے ہیں
ہوا اپنی مسافت کی کہانی ریت پر تحریر کرتی جا رہی ہے
سمے سے پرے دکھوں کے ہزاروں رنگ
فلک کی نیلمیں پہنائیوں سے یوں ابھرتے ہیں
جیسے بکھرا ہوا وجود ، ٹوٹے ہوئے خواب
یا کسی زلزلے میں برباد شہر کا ملبہ
ایک سلگتی تنہائ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور ایک درد میں ڈوبا ہوا دن
تھوڑی دیر میں پھر نکل پڑے گا
ہاتھوں پر زخموں کا طشت اٹھائے
گلی گلی قریہ قریہ بانٹنے کے لئے