بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں
اِن راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر
ہاتھوں کو میں کبھی،کبھی بالوں کو چوم لوں
دیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں
پانی کے یہ جو پھول ہیں رُخ پر کھلے ہوئے
اِن میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے
ہونٹ سے اِن کو چُنتے رہیں خوش دِلی کے ساتھ
تارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ
˙·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)♥●•٠·
No comments:
Post a Comment