خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں یہ دھوکا تو نہ ہو
اب وہاں سے جو محبت کے پیام آتے ہیں
رسمِ تحریر بھی مٹ جائے یہی مطلب ہے
اُن کے خط میں مجھے غیروں کے سلام آتے ہیں
وصل کی رات گذر جائے نہ بے لطفی میں
کہ مجھے نیند کے جھونکے سرِ شام آتے ہیں
No comments:
Post a Comment