ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لئے ہیں جھولی میں
اور سر پہ ساہوکار کھڑا
یہاں بوند نہیں یے دیوے میں
وہ باج، بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمیں کو تکتے ہیں
وہ ڈھیر اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سُر سنگیت میں سوئے تھے
جب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول بہت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معانی نہ ملے
کچھ گیت خبت دیوانوں کے
کچھ نیر وفا کی شاموں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
مِٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رُت میں
کیا کھویا تھا ، کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
پھر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پہ چھایا چھتری ہوگی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے گجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماشہ ہےکوئی تولہ ہے
اب گھاٹ نہ گھر
دہلیز نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا؟
بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا۔
**:♥♥muje tum yad ate ho♥♥:**
No comments:
Post a Comment