دسمبر جا رہے ہو ناں
خدارا اب نہیں آنا
مقدر کے شکستہ طاق پر رکھی
وہ بوسیدہ سی جو پہلی محبت ہے
شکستہ سی مگر فاصب بہت ظالم
بہت قاتل رفاقت ہے
انھیں بھی ساتھ لے جانا
میری سوچوں کی مسند پر
جو حاکم اس کی یادیں ہیں
ہے گردش زہر قاتل سی
کہ جس میں گونجتی رہتی ہیں
ہماوقت اس کی باتیں
انھیں بھی ساتھ لے جانا
یہ وحشی ہجر کے موسم
جو صدیوں سے میرے جیوں پہ قابض ہیں
یہ خستہ جسم، بسمل جان بھی فریاد کرتے ہیں
دسمبر سن رہے ہو ناں
دسمبر اب نہیں آنا
No comments:
Post a Comment