اک بار مل کے پھر نہ کبھی عمر بھر ملے
دو اجنبی تھے ہم جو سر رہگزر ملے
کچھ منزلوں کے خواب تھے کچھ راستوں کی دھوپ
نکلے سفر پہ ہم تو یہی ہمسفر ملے
یوں اپنی سرسری سی ملاقات خود سے تھی
جیسے کسی سے کوئی سر رہگزر ملے
اک شخص کھو گیا ہے جو رستے کی بھیڑ میں
اسکا پتہ چلے تو کچھ اپنی خبر ملے
اپنے سفر میں یوں تو اکیلا ہوں میں مگر
سایہ سا ایک 'راہ کے ہر موڑ پہ ملے
دو اجنبی تھے ہم جو سر رہگزر ملے
کچھ منزلوں کے خواب تھے کچھ راستوں کی دھوپ
نکلے سفر پہ ہم تو یہی ہمسفر ملے
یوں اپنی سرسری سی ملاقات خود سے تھی
جیسے کسی سے کوئی سر رہگزر ملے
اک شخص کھو گیا ہے جو رستے کی بھیڑ میں
اسکا پتہ چلے تو کچھ اپنی خبر ملے
اپنے سفر میں یوں تو اکیلا ہوں میں مگر
سایہ سا ایک 'راہ کے ہر موڑ پہ ملے
No comments:
Post a Comment