کہاں کہاں سے مٹائے گا خوش گماں میرے
ترے بدن سے تری روح تک، نشاں میرے
کہیں بھی جا کے بسا لے تو بھول کی بستی
محیط ہیں ترے، یادوں کے آسماں میرے
اگرچہ فاصلہ دو چند کر لیا تو نے
رواں دواں ہیں تری سمت کارواں میرے
میں جاؤں بھی تو کہاں ، چھوڑ کر تری گلیاں
تو کر گیا سبھی رستے دھواں دھواں میرے
عبور ہوتے نہیں ، روز طے تو کرتا ہوں
یہ ہجر فاصلے، یہ بحرِ بے کراں میرے
ہوا کے بیڑے کسی اور سمت بہتے ہیں
کھلے ہیں اور کسی سمت بادباں میرے
میں اپنے جذبوں کی شدت سے خوف کھاتا ہوں
کہ دشمنوں سے ہیں بڑھ کر، یہ مہرباں میرے
No comments:
Post a Comment