اے شمعِ کوئے جاناں ــــ
ھے تیز ھوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ھوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ھوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ھوگا
بولے گا نہ کچھ لیکن ، فریاد کُناں ھوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راھی --------- وہ سوختہ پروانہ
جب آئے یہاں اُس کو مایوس نہ لوٹانا
ھو تیز ھوا کتنی ، لَو اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا -------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں اِک پھول نے کھلنا ھے !!
اُس نے انہی گلیوں میں ، اِک شخص سے ملنا ھے
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮐﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﮭﺎ ﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﭼﮭُﻮ ﻟﮯ
ﻣﮕﺮ ﺍﮎ ﺑﮯ ﺻﺪﺍ ﺁﮨﭧ ﭘﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭨﺎ ﺗﻮ
ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺗﮭﮯ
ﻧﮧ ﻭﮦ ﮔﻠﻨﺎﺭ ﺳﺎ ﭼﮩﺮﮦ، ﻧﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺑﯿﺪﮦ ﺳﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻧﮧ ﺳﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﻭﮦ ﭘﻠﮑﯿﮟ، ﻧﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﭼﯽ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ
ﻧﮧ ﺷﮩﺪ ﺁﮔﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﺐ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﻧﮧ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺣﺮﻑِ ﮔﻞ ﮐﻮﺋﯽ
ﻣﮑﻤﻞ ﺍﮎ ﻧﯿﺎ ﭼﮩﺮﮦ
ﻣﮑﻤﻞ ﺍﮎ ﻧﯿﺎ ﻟﮩﺠﮧ
ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﻮﮞ ﺑﺪﻝ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﮐﮭﻼ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﻓﻘﻂ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺷﮏ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﮭﯽ
یقین کی آخری حد تک
یقین ہے اور دعویٰ بھی
کہ رخصت کرکے بھی اکثر
نظر کی آخری حد تک
مجھے وہ دیکھتی ہوگی
مگر اتنے یقین کے بعد بھی میں نے
کبھی مڑ کر نہیں دیکھا
بس ایک مبہم سا ڈر سا ہے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
پلٹ کر میں اسے دیکھوں
تو واپس جا چکی ہو وہ ــــــــــــــــ !!!
جنم جنم کی اذیت اِسی چبھن میں تھی
نہ خشک پھول نہ ہاتھوں میں زرد شاخیں تھیں
نہ جسم ڈول رہے تھے نہ بند آنکھیں تھیں
زباں نے کانپتے لہجے سنبھال رکھے تھے
ہمارے آنسو کہیں گہری نیند سوۓ تھے
بدن کی لو سے جو خوشبو نہ راکھ ہو پائی
وہ خوشبو وصل کی خوشبو تھی اپنی سانسوں میں
دم جدائی وہی حوصلے تھے باتوں میں
مگر وہ ٹیس جو رہ رہ کر دل میں اٹھتی تھی
ہمارے سارے بھرم توڑنے کی دھن میں تھی
جنم جنم کی اذیت اسی چبھن میں تھی ____________!!!!
No comments:
Post a Comment