MUJAY TUM BOHT YAD AATE HO


12 Sept 2014

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے

مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشتہِ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کے سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے


نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کے دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن
کبھی تو کشتِ زعفران کبھی اُداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جانگسل کی بھی
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں وہ میری بات سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے


شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ ایک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی
اب اُس کی یاد رات دن ، نہیں ، مگر ”کبھی کبھی"
احمد فراز


˙·٠•●♥ H(♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)G♥●•٠



B♥♥♥♥♥B

No comments:

Post a Comment

111111111111111111111111111111111111111111111111