MUJAY TUM BOHT YAD AATE HO


29 Sept 2014

دور کہیں ویرانوں میں ھم پھول کھلانے نکلے تھے



دور کہیں ویرانوں میں ھم پھول کھلانے نکلے تھے
یا پھر ھم دیوانے تھے اور دھول اڑانے نکلے تھے
سال ھوئے بےحال ھوئے اور نیند خفا ھے آنکھوں سے
جانے کون گھڑی تھی جب ھم خواب سجانے نکلے تھے
ایک نظر کیا پائی ارماں ایک سے ایک ھزار ھوئے
اور ھم ایک نظر کی خاطر جان گنوانے نکلے تھے

امریتا، پروین کے مصرعے شیریں اور کسیلے سے
ھم بھی اپنے شعروں میں وہ لاگ لگانے نکلے تھے

دور افق پر جلتے بجھتے تارے دیکھ کے لگتا ھے
جگنو ھیں جو اندھیاروں کا جی بہلانے نکلے تھے

عشق میں کیونکر بھول ھوئی کہ ھم کو ھار قبول ھوئی
ھم تو اس رستے پر اپنی جان گنوانے نکلے تھے

آج قضا افسانہ ھے یا باقی عمر حقیقت تھی
یا پھر یہی حقیقت اور باقی افسانے نکلے تھے

˙·٠•●♥ H(♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)G♥●•



B♥♥♥♥♥B

No comments:

Post a Comment

111111111111111111111111111111111111111111111111