"اجنبی شام"
"اجنبی شام"
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر.
اڑ رہے ہیں پرندے ٹیلوں کی طرف.
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف.
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف.
اپنے گلوں کو لے کے چروا ہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے.
دل ناکام! میں کہاں جاؤں.
اجنبی شام! میں کہاں جاؤں.
GUL ·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)♥●•
B♥♥♥♥♥B
111111111111111111111111111111111111111111111111
No comments:
Post a Comment