آنکھوں کو بدلنے کی روایت نہیں سیکھی
ھاں،ھم نےزمانے کی یہ عادت نہیں سیکھی
ھاں،ھم نےزمانے کی یہ عادت نہیں سیکھی
یہ جان کی بازی ھے یوں،چُپ چاپ نہ ھارو
تم نے بھی محبت میں بغاوت نہیں سیکھی
اُس کو بھی عداوت کا سلیقہ نہیں آیا
اور ھم نے بھی لگتا ھے محبت نہیں سیکھی
ساحل سے سمندر کا سکوں سیکھا ھے ھم نے
موجوں سے وہ لپٹی ھوئی وحشت نہیں سیکھی
آتے ھوئے جھونکوں سے اُلجھتے رہے اکثر
جاتے ھوئے لمحوں سے شکایت نہیں سیکھی
تم سے یہ کہا بھی تھا انا ھم سے نہ چھینو
اور تم نے رویئے میں،رعایت نہیں سیکھی
ھم پچھلی صفوں پر ہی کھڑے رہ گئے آخر
شہرت کو کمایا تو ھے شہرت نہیں سیکھی
تم سے یہ کہا بھی تھا انا ھم سے نہ چھینو
اور تم نے رویئے میں،رعایت نہیں سیکھی
ھم پچھلی صفوں پر ہی کھڑے رہ گئے آخر
شہرت کو کمایا تو ھے شہرت نہیں سیکھی
ھاں درد چُھپانے کا قرینہ بھی تھا مشکل
پلکوں پہ جو جم جاتی ھے حیرت نہیں سیکھی
GUL ·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)♥●•
No comments:
Post a Comment