کہا تھا یہ دسمبر میں ہمیں تم ملنے آؤ گے
دسمبر کتنے گذرے ہیں تمہاری راہوں تکتے
نجانے کس دسمبر میں تمہیں ملنے کو آنا ہے
ہماری تو دسمبر نے بہت امیدیں توڑی ہیں
بڑے سپنے بکھیرے ہیں ہماری راہ تکتی منتظر
پرنم نگاہوں میں ساون کے جو ڈیرے ہیں
دسمبر کے ہی تحفے ہیں دسمبر پھر سے آیا ہے
جو تم اب بھی نہ آئے تو پھر تم دیکھنا خود ہی
تمہاری یاد میں اب کے اکیلے ہم نہ روئیں گے
ہمارا ساتھ دینے کو ساون کے بھرے بادل
گلے مل مل کے روئیں گے پھر اتنا پانی برسے گا
سمندر سہہ نہ پائے گا کرو نہ ضد چلے آؤ رکھا ہے کیا دسمبر میں
دلوں میں پیار ہو تو پھر مہینے سارے اچھے ہیں
کسی بھی پیارے موسم میں چپکے سے چلے آؤ
سجن اب مان بھی جاؤ دسمبر تو دسمبر ہے
دسمبر کا بھروسہ کیا
...دسمبر بیت ہی جائے گا
No comments:
Post a Comment