صرف اس واسطے شانوں پہ ردائے تہذیب
ڈالے رہتا ہوں کہ حیواں نہ کہے کوئی مجھے
وہ ثقافت جسے کہتے ہیں، اثاثہ، ورنہ
سالہا سال کی محنت ہے جو انسانوں کی
میرے اِک فعل سے غارت نہ کہیں ہو جائے
ورنہ تم سامنے آتی ہو تو سر سے پا تک
دوڑ جاتی ہے کبھی آگ سی تیزاب سا اک شعلہ سا
تم کو معلوم ہے اس دور میں میرے دن رات
صرف اس واسطے با معنی ہیں تم سامنے ہو
تم کو معلوم ہے یہ گردش ایام مجھے
کیوں بھلی لگتی ہے، کیوں دیکھ کے تم کو آنکھیں
مسکرا اٹھتی ہیں، میں شاد نظر آتا ہوں
میں جو اس پھیلی ہوئی دنیا میں یوں جیتا تھا
جیسے یہ بستی نہیں، شہر ہے اک لاشوں کا
جس میں انسان نہیں مردے ہیں کفن پہنے ہوئے
اور ان مردوں میں لب سوختہ، میں بھی ہوں کہیں
تم نے احساس دلایا نہیں، میں لاش نہیں
اپنی گفتار کی گرمی سے حرارت بخشی
منجمد خون کو دوڑا دیا شریانوں میں
کھینچ لائیں مجھے، تنہائی کی دنیا سے یہاں
میں الف لیلیٰ کا کردار نہیں ہوں کوئی
تم بھی افسانوی محبوبہ نہیں اور نہ تھیں
پھر روایاتی ستم کیوں کیا تم نے مجھ پر؟
خود ہی وارفتہ ہوئیں، کھینچ گئیں خود ہی ایسے
جیسے میں واقعی اِک لاش ہوں چلتی پھرتی
اب تمھیں دیکھ کے میں دل سے دعا کرتا ہوں
لاش بن جاؤں میں، سچ مچ ہی، یہ بیگانہ روی
یہ نیا طرزِ وفا، تم نے جو سیکھا ہے ابھی
کچے شیشے کی طرح ٹوٹ کے ریزہ ہو جائے
اور تم مجھ سے ہر اک خوف کو ٹھکراتے ہوئے
چیخ کر ایسے لپٹ جاؤ، کلیجہ پھٹ جائے!
GUL ·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے و ♥♥
No comments:
Post a Comment