وہ دن مجھے آج بھی یاد ھے کہ میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پہ باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا میں نے ماں سے ضد کی مجھے گھڑٰی خرید کر دیں لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکیں اور ھم ضد کرتے روتے روتے ماں کیساتھ گھر آ گئے اور گھر آتے ہی گھر سر پر اُٹھا لیا اُس وقت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی مجال ہی نہ ہوتی اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پھر صاحب ھوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانہ دیا اور ھم نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا وھاں ماں کو تھوڑا غصہ آیا اور آخر کہہ ہی دیا نہیں کھانا نہ کھائو مرو جا کر کہیں تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ھیں دفع ھو جائو اور مجھے دوبارہ شکل مت دکھانا تو صاحب انا بھی ہمارے اندر خُدا نے دبا دبا کر شروع سے ہی بھری ہوئی ھے ماں کے یہ الفاظ سننا تھے کہ اُٹھ کھڑے ھوئے اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیے غالباً چھ سے سات گھنٹے ھم نے جتنی بے فکری سے گُذارے شاید ماں نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ کرب ناک گُذارے ھوں گے اس بات کا اندازہ اُس وقت ھوا جب ھم نے ایک مسجد کے اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا راستے میں میرا پھوپھو زاد ملا جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا مجھے گھر لے گیا جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ھاتھ میں گھڑی ، ایک ھاتھ میں کھانا اور آنکھوں میں میری نادانی یعنی آنسو لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگایا ، ماتھا چومتے ھوئے گھڑی باندھی ، کہا تم نے دوپہر سے کھانا بھی نہیں کھایا کیا حشر کر لیا اپنا اور جو کرنے کا حکم مجھے دیا تھا اپنے اُوپر لے لیا کہتیں اگر............................. میں مر جاندی تے فیر ساری عمر تو گھڑیاں ای پانیاں سی ۔........................
۔ اُس دن ھونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ھے اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گُزرتی ھے۔ ھاسٹل میں رھتے ھوئے جی کرتا ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جائوں اور سر پیٹ پیٹ کر انہی قدموں میں جان دے دوں جب یہ یاد آتا ھے کہ جب ماں جہیز میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیج کر اُس دن میرے لئے گھڑی لائی۔.!!
۔ اُس دن ھونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ھے اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گُزرتی ھے۔ ھاسٹل میں رھتے ھوئے جی کرتا ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جائوں اور سر پیٹ پیٹ کر انہی قدموں میں جان دے دوں جب یہ یاد آتا ھے کہ جب ماں جہیز میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیج کر اُس دن میرے لئے گھڑی لائی۔.!!
No comments:
Post a Comment