دور کہیں ویرانوں میں ھم پھول کھلانے نکلے تھے
یا پھر ھم دیوانے تھے اور دھول اڑانے نکلے تھے
سال ھوئے بےحال ھوئے اور نیند خفا ھے آنکھوں سے
جانے کون گھڑی تھی جب ھم خواب سجانے نکلے تھے
ایک نظر کیا پائی ارماں ایک سے ایک ھزار ھوئے
اور ھم ایک نظر کی خاطر جان گنوانے نکلے تھے
اور ھم ایک نظر کی خاطر جان گنوانے نکلے تھے
امریتا، پروین کے مصرعے شیریں اور کسیلے سے
ھم بھی اپنے شعروں میں وہ لاگ لگانے نکلے تھے
ھم بھی اپنے شعروں میں وہ لاگ لگانے نکلے تھے
دور افق پر جلتے بجھتے تارے دیکھ کے لگتا ھے
جگنو ھیں جو اندھیاروں کا جی بہلانے نکلے تھے
جگنو ھیں جو اندھیاروں کا جی بہلانے نکلے تھے
عشق میں کیونکر بھول ھوئی کہ ھم کو ھار قبول ھوئی
ھم تو اس رستے پر اپنی جان گنوانے نکلے تھے
ھم تو اس رستے پر اپنی جان گنوانے نکلے تھے
آج قضا افسانہ ھے یا باقی عمر حقیقت تھی
یا پھر یہی حقیقت اور باقی افسانے نکلے تھے
یا پھر یہی حقیقت اور باقی افسانے نکلے تھے
No comments:
Post a Comment