اداسی....
کہنے کو اک لفظ ہے.
لیکن جب انسان پہ یہ گزرے.
سب سے درد ناک لمحات ہوتے ہیں.
اب اس اداسی کی بھی اقسام ہیں
ایک تو وہ اداسی جس کی وجہ معلوم ہو. جیسے کسی اپنے کی یاد آئے تو انسان اداسی محسوس کرتا ہے.
لیکن ایک اداسی یہ بھی ہے.
جس کی وجہ انسان کو معلوم ہی نہیں ہوتی.
اور وجہ نا معلوم ہو تو اداسی ایک درد کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے.
تب وہ لمحہ آتا ہے
انسان اپنے دوستوں عزیزوں سے کٹنا شروع ہو جاتا ہے
رابطے ختم کرنے لگتا ہے.
علیحدہ تنہا رہنا چاہتا ہے.
اپنے بہترین دوستوں سے کنارہ کرنا شروع کرتا ہے..
کیوں کے اسے لگتا ہے کہ ایسے سکون ملے گا.
ماضی حال کی طرح آنکھوں میں گھومنا شروع ہوتا ہے.
کاش اور اگر... اس کی زبان پہ آ جاتا ہے .
کسی اپنے کی معمولی سی بات بھی بری لگتی ہے.
کچھ ماضی کی باتیں اور لوگ کسی بدلے ہوئے انداز میں نظر آتے ہیں.
کچھ لوگ جنہیں برا کہتے رہے تھے اچانک اچھے لگنے لگتے ہیں
کچھ جو بہت اچھے لگتے ہیں.اچانک برائیاں نظر آنے لگتی ہیں.
برحال سو قسم کی سوچیں آتی ہیں.
اداسی کی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی..
کبھی لگتا شائد کسی ایسے گناہ کی وجہ سے ہے جس کی توبہ نہیں کی.
کبھی کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا خوف محسوس ہوتا.
کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شائد کسی آفت کا الارم ہے.
اتنی سوچوں کے بعد
نہ اداسی کی وجہ سمجھ آتی.
نہ یہ سمجھ آتی کہ کیا جائے..
صرف ایک خواہش دل میں انگڑائی کہ کوئی ایسا اپنا ہو جو نہ تو سمجھائے, نہ تو ڈرائے, نہ ہی کوئی برائی بیان کرے.. صرف آپ سے آپ کی بات کرے اور آپ کو آپ کی بات سنائے.
کچھ بونگیاں مارے
وہ آپ کو بتائے کہ وہ آپ کی فکر کرتا ہے.
وہ بتائے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے... یقین مانیں اس وقت کی ماری ہوئی بونگیاں انسان کو بہت سکون دیتی ہیں. اور ہمارا اس بونگے انسان سے رشتہ بہت مضبوط کر دیتا ہے.
لیکن...
اسی بونگے انسان پہ ایسی اداسی چھا جائے...
اور اس کہ سامنے بونگیاں مارنے والا کوئی بھی نہ ہو..
اس کی باتیں بتانے والا کوئی نہ ہو...
اس کی باتیں سنانے والا کوئی نہ ہو.
اسے یہ کہنے والا کوئی نہ کہ مجھے تمہاری فکر ہے.
اسے یہ بتانے والا کوئی نہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.
تب.............
بس دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ...
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو!
کہ دل اداس بہت ہے...
کہنے کو اک لفظ ہے.
لیکن جب انسان پہ یہ گزرے.
سب سے درد ناک لمحات ہوتے ہیں.
اب اس اداسی کی بھی اقسام ہیں
ایک تو وہ اداسی جس کی وجہ معلوم ہو. جیسے کسی اپنے کی یاد آئے تو انسان اداسی محسوس کرتا ہے.
لیکن ایک اداسی یہ بھی ہے.
جس کی وجہ انسان کو معلوم ہی نہیں ہوتی.
اور وجہ نا معلوم ہو تو اداسی ایک درد کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے.
تب وہ لمحہ آتا ہے
انسان اپنے دوستوں عزیزوں سے کٹنا شروع ہو جاتا ہے
رابطے ختم کرنے لگتا ہے.
علیحدہ تنہا رہنا چاہتا ہے.
اپنے بہترین دوستوں سے کنارہ کرنا شروع کرتا ہے..
کیوں کے اسے لگتا ہے کہ ایسے سکون ملے گا.
ماضی حال کی طرح آنکھوں میں گھومنا شروع ہوتا ہے.
کاش اور اگر... اس کی زبان پہ آ جاتا ہے .
کسی اپنے کی معمولی سی بات بھی بری لگتی ہے.
کچھ ماضی کی باتیں اور لوگ کسی بدلے ہوئے انداز میں نظر آتے ہیں.
کچھ لوگ جنہیں برا کہتے رہے تھے اچانک اچھے لگنے لگتے ہیں
کچھ جو بہت اچھے لگتے ہیں.اچانک برائیاں نظر آنے لگتی ہیں.
برحال سو قسم کی سوچیں آتی ہیں.
اداسی کی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی..
کبھی لگتا شائد کسی ایسے گناہ کی وجہ سے ہے جس کی توبہ نہیں کی.
کبھی کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا خوف محسوس ہوتا.
کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شائد کسی آفت کا الارم ہے.
اتنی سوچوں کے بعد
نہ اداسی کی وجہ سمجھ آتی.
نہ یہ سمجھ آتی کہ کیا جائے..
صرف ایک خواہش دل میں انگڑائی کہ کوئی ایسا اپنا ہو جو نہ تو سمجھائے, نہ تو ڈرائے, نہ ہی کوئی برائی بیان کرے.. صرف آپ سے آپ کی بات کرے اور آپ کو آپ کی بات سنائے.
کچھ بونگیاں مارے
وہ آپ کو بتائے کہ وہ آپ کی فکر کرتا ہے.
وہ بتائے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے... یقین مانیں اس وقت کی ماری ہوئی بونگیاں انسان کو بہت سکون دیتی ہیں. اور ہمارا اس بونگے انسان سے رشتہ بہت مضبوط کر دیتا ہے.
لیکن...
اسی بونگے انسان پہ ایسی اداسی چھا جائے...
اور اس کہ سامنے بونگیاں مارنے والا کوئی بھی نہ ہو..
اس کی باتیں بتانے والا کوئی نہ ہو...
اس کی باتیں سنانے والا کوئی نہ ہو.
اسے یہ کہنے والا کوئی نہ کہ مجھے تمہاری فکر ہے.
اسے یہ بتانے والا کوئی نہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.
تب.............
بس دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ...
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو!
کہ دل اداس بہت ہے...