وفائیں عشق بھری! دان میں نہیں ملتیں
محبتیں کبھی احسان میں نہیں ملتیں
کبھی کبھار ملیں حسرتوں کی صورت میں
تمام راحتیں ارمان میں نہیں ملتیں
مجھے ملی ہیں کچھ ایسی محبتیں جو کہ
محبتیں کبھی احسان میں نہیں ملتیں
کبھی کبھار ملیں حسرتوں کی صورت میں
تمام راحتیں ارمان میں نہیں ملتیں
مجھے ملی ہیں کچھ ایسی محبتیں جو کہ
کسی نوِشت میں امکان میں نہیں ملتیں
کتابِ زیست کا ہر باب دیکھنا ہوگا
تمام باتیں تو عنوان میں نہیں ملتیں
ذرا تو وقت کی کروٹ کا انتظار کرو
حلاوتیں کسی بحران میں نہیں ملتیں
بہ صد خلوص بہ صد ناز مل چکی ہیں مجھے
یہ راحتیں کبھی تاوان میں نہیں ملتیں
وہ میرے شعروں میں پنہاں ہیں کوئی دیکھے تو
جو تلخیاں مری مسکان میں نہیں ملتیں
گزر رہا ہے جو لمحہ تلاش اس میں کرو
نگاہیں ماضی کے دالان میں نہیں ملتیں
بیاضِ عاشی میں مل جائیں گی وہ سب اسناد
جو میر و درد کے دیوان میں نہیں ملتیں
No comments:
Post a Comment