کیا حاصل ہے کیا لا حاصل-----چل گٹھڑی کھول کے لمحوں کو
کچھ وصل اور ہجر کے برسوں کو----کچھ گیتوں کو، کچھ اشکوں کو
پھر دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں----یہ درد بھری سوغات ہے جو
یہ جیون کی خیرات ہے جو----اک لمبی کالی رات ہے جو
سب اپنے پاس ہی کیوں آئی---یہ ہم کو راس ہی کیوں آئی
یہ دیکھ یہ لمحہ میرا تھا جو اور کسی کے نام ہوا
یہ دیکھ یہ صبح کا منظر تھا جو صبح سے مثلِ شام ہوا
اور یہ میرا آغاز پڑا جو بد تر از انجا م ہوا
اب چھوڑ اسے آ دیکھ ادھر---یہ حبس پڑا اور ساتھ اس کے
کچھ اکھڑی اکھڑی سانسیں ہیں---ا ک دھندلا دھندلا منظر ہے
اور اجڑی اجڑی آنکھیں ہیں
یہ جھلسے ہوئے کچھ خواب ہیں جن کے ساتھ کوئی تعبیر نہیں
یہ دیکھ حنائی ہاتھ بھی ہیں پر وصل کی ایک لکیر نہیں
دو نازک ہونٹ گلاب سے ہیں پر داد جو دے وہ میر نہیں
اک اسم محبت والا ہے اور اس کی بھی تفسیر نہیں
بس اتنی ہمت تھی تجھ میں---بس تیری آنکھیں بھیگ گئیں
ابھی اور بہت سے لمحے ہیں ---ابھی اور بہت سی باتیں ہیں
ابھی ہجر بھرا اک ہجرہ ہے---ابھی درد بھری اک کٹیا ہے
چل چھوڑ اس درد کہانی کو --روک آنکھ سے بہتے پانی کو
آ ڈھونڈ کہیں اس گٹھڑی میں --اک ہجر آلود سا وعدہ ہے
وعدہ بھی سیدھا سادہ ہے---بس اپنے اپنے رستے پر
چلتے رہنے کا ارادہ ہے---تُو دیکھ اگر وہ مِل جائے
ممکن ہے زخم بھی سِل جائے ---ورنہ ہم ہجر جو کاٹ چکے
وہ اس جیون سے زیادہ ہے
No comments:
Post a Comment