روٹھا تو شهرء خواب کو غارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازه شرارت بھی کر گیا
پھر مسکرا کے تازه شرارت بھی کر گیا
شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بںھت
وه میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا
منه روز آندھیوں کی هتھلی په ایک داغ
پیدا میرے لهو میں حرارت بھی کر گیا
بوسیده بادبان کا ٹکڑا هوا کے ساتھ
طوفان میں کشتیوں کی سفارت بھی کر گیا
دل کا نگر اجاڑنے والا هنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا
سب اھلء شهر جس په اٹھاتے تھے انگلیاں
وه شهر بھر کو وجه زیارت بھی کر گیا
محسن یه دل اس سے بچھڑتا نه تھا کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کر گیا
GUL ·٠•●♥ (♥♥ مھجے تم یاد آتے ہو ♥♥)♥
No comments:
Post a Comment