خواب اور آنکھیں
تمہاری آنکھیں بہت خوب صورت ہیں
یہ ایک ایسا جملہ تھا جو اس سے ملنے والا ہر شخص کہتا تھا آئینے کی آنکھ بھی اس کو دیکھ کر چمک اٹھتی نرگس صدقہ اتارتی، ستارے جھک کر سلامی دیتے اور چاند رشک و حیرت سے تکا کرتا لیکن
اس کی ان خوب صورت آنکھوں میں کبھی کوئی خواب نہیں جگا وہ اکثر سوچتی، لوگ رنگ برنگے، پھولوں، تتلیوں اور جگنوؤں کے خواب دیکھتے ہیں
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میری آنکھیں ان خوابوں سے محروم کیوں ہیں؟ نا آشنا کیوں ہیں؟
اماں! میری آنکھوں میں خواب کیوں نہیں جاگتے! وہ اکثر پلکیں جھپک جھپک کر سوال کرتی اچھا ہے پگلی! غریبوں کو خواب نہ ہی ستائیں تو بہتر ہے، خواہ مخواہ نیند حرام ہوجاتی ہے
اماں اکتائے ہوئے لہجے میں اسے سمجھاتیں کوئی نیند ویند حرام نہیں ہوتی ،آپ تو بس یونہی کہتی رہتی ہیں وہ کسی ضدی بچے کی طرح منہ پھلا کر کہتی اور پھر ایک دن اچانک اس کی ملاقات خوابوں کے سوداگر سے ہوگئی سنو، میں خواب خریدنا چاہتی ہوں
وہ آنکھوں میں اشتیاق کی معصوم سی چمک لیے "اس" سے مخاطب تھی وہ چونک اٹھا،
لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا اور ایک خوب صورت سا خواب، اپنی گٹھڑی سے نکال کر تھمادیا
اِس خواب کی قیمت کیا ہے؟
سوالیہ نظریں اٹھیں
تمہاری خوب صورت آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔خواب بیچنے والے نے بےنیازی سے کہا نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا
ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے،میری آنکھیں تو بہت خوب صورت ہیں، بہت قیمتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انمول
خواب بھی تو بہت خوب صورت اور قیمتی ہے، انمول سوداگر نے جواب دیا
تم اپنا خواب واپس لےلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گھبرا کر بولی نہیں اب یہ ممکن نہیں ہے
اِس سودے میں فروخت کیا ہوا مال واپس نہیں جاتا سرد لہجے میں کہا گیا
تو پھر یوں ہوا کہ سوداگر نے اس کی دونوں آنکھیں لےکر اپنی گٹھڑی میں ڈال لیں اور رخصت ہوگیا کسی اور گلی،کسی اور نگر کی جانب
نئے سرے سے خوابوں کا سودا کرنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب وہ لڑکی اپنے ہاتھوں میں خواب تھامے کھڑی تھی لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھنے کےلیے اس کے پاس خوب صورت آنکھیں نہیں تھیں
تمہاری آنکھیں بہت خوب صورت ہیں
یہ ایک ایسا جملہ تھا جو اس سے ملنے والا ہر شخص کہتا تھا آئینے کی آنکھ بھی اس کو دیکھ کر چمک اٹھتی نرگس صدقہ اتارتی، ستارے جھک کر سلامی دیتے اور چاند رشک و حیرت سے تکا کرتا لیکن
اس کی ان خوب صورت آنکھوں میں کبھی کوئی خواب نہیں جگا وہ اکثر سوچتی، لوگ رنگ برنگے، پھولوں، تتلیوں اور جگنوؤں کے خواب دیکھتے ہیں
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میری آنکھیں ان خوابوں سے محروم کیوں ہیں؟ نا آشنا کیوں ہیں؟
اماں! میری آنکھوں میں خواب کیوں نہیں جاگتے! وہ اکثر پلکیں جھپک جھپک کر سوال کرتی اچھا ہے پگلی! غریبوں کو خواب نہ ہی ستائیں تو بہتر ہے، خواہ مخواہ نیند حرام ہوجاتی ہے
اماں اکتائے ہوئے لہجے میں اسے سمجھاتیں کوئی نیند ویند حرام نہیں ہوتی ،آپ تو بس یونہی کہتی رہتی ہیں وہ کسی ضدی بچے کی طرح منہ پھلا کر کہتی اور پھر ایک دن اچانک اس کی ملاقات خوابوں کے سوداگر سے ہوگئی سنو، میں خواب خریدنا چاہتی ہوں
وہ آنکھوں میں اشتیاق کی معصوم سی چمک لیے "اس" سے مخاطب تھی وہ چونک اٹھا،
لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا اور ایک خوب صورت سا خواب، اپنی گٹھڑی سے نکال کر تھمادیا
اِس خواب کی قیمت کیا ہے؟
سوالیہ نظریں اٹھیں
تمہاری خوب صورت آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔خواب بیچنے والے نے بےنیازی سے کہا نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا
ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے،میری آنکھیں تو بہت خوب صورت ہیں، بہت قیمتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انمول
خواب بھی تو بہت خوب صورت اور قیمتی ہے، انمول سوداگر نے جواب دیا
تم اپنا خواب واپس لےلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گھبرا کر بولی نہیں اب یہ ممکن نہیں ہے
اِس سودے میں فروخت کیا ہوا مال واپس نہیں جاتا سرد لہجے میں کہا گیا
تو پھر یوں ہوا کہ سوداگر نے اس کی دونوں آنکھیں لےکر اپنی گٹھڑی میں ڈال لیں اور رخصت ہوگیا کسی اور گلی،کسی اور نگر کی جانب
نئے سرے سے خوابوں کا سودا کرنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب وہ لڑکی اپنے ہاتھوں میں خواب تھامے کھڑی تھی لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھنے کےلیے اس کے پاس خوب صورت آنکھیں نہیں تھیں
No comments:
Post a Comment