رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ مرے پاس آئے
آج تسکینِ مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک،آج سرِشام ہی جاگ اُٹھی ہے
اب یہ بھیگی ہُوئی بوجھل پلکیں
اور نمناک ،اُداس آنکھیں لیے
رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے
اور پَل بھر کے لیے،میں بھی نہ سونے پاؤں
دیو مالائی فسانوں کی کسی منتظرِ موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت،دُکھی رُوح کی مانندبھٹکنے کے لیے
کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی
دُور افتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
پہروں اُس سمت تکے گی کہ جہاں سے اکثر
اُس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَوا آتی ہے!
گئے موسم کی شناسا خوشبو
یوں رگ و پے میں اُترتی ہے
کہ جیسے کوئی چمکیلا،رُوپہلاسیال
جسم میں ایسے سرایت کر جائے
جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش!
غیر محسوس سروشِ نکہت
ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے
جس کی دستکیاد کے بند دریچوں کوبڑی نرمی سے
ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
ہر دریچے کی الگ خوشبو سے
رنگ در رنگ چھلک جائے گا!
یہ دلآویز خزانے میرے
میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
مرے دل کی کمائی بھی ہیں
ان کے ہوتے ہُوئے اوروں کی ضرورت کیا ہے
رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ مرے پاس آئے!
آج کی شب نہ مرے پاس آئے
آج تسکینِ مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک،آج سرِشام ہی جاگ اُٹھی ہے
اب یہ بھیگی ہُوئی بوجھل پلکیں
اور نمناک ،اُداس آنکھیں لیے
رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے
اور پَل بھر کے لیے،میں بھی نہ سونے پاؤں
دیو مالائی فسانوں کی کسی منتظرِ موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت،دُکھی رُوح کی مانندبھٹکنے کے لیے
کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی
دُور افتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
پہروں اُس سمت تکے گی کہ جہاں سے اکثر
اُس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَوا آتی ہے!
گئے موسم کی شناسا خوشبو
یوں رگ و پے میں اُترتی ہے
کہ جیسے کوئی چمکیلا،رُوپہلاسیال
جسم میں ایسے سرایت کر جائے
جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش!
غیر محسوس سروشِ نکہت
ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے
جس کی دستکیاد کے بند دریچوں کوبڑی نرمی سے
ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
ہر دریچے کی الگ خوشبو سے
رنگ در رنگ چھلک جائے گا!
یہ دلآویز خزانے میرے
میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
مرے دل کی کمائی بھی ہیں
ان کے ہوتے ہُوئے اوروں کی ضرورت کیا ہے
رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ مرے پاس آئے!
No comments:
Post a Comment