وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لو گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لو گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی
خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
تو جان لینا
کے شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خوہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاََ ہیں
ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لے گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
تو جان لینا
کے شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خوہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاََ ہیں
ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لے گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا
No comments:
Post a Comment